16ویں صدی کے آخر تک انگلینڈ معاشی تباہی کے کنارے پہنچ چکا تھا۔ لگ بھگ پچاس سال فرانس کے ساتھ مسلسل جنگوں کے علاوہ نیدر لینڈ کے ساتھ کبھی کبھار کی جنگوں نے نڈھال کر دیا۔ سرکاری افسر منی چینجرز کو ملے اور قرضے کی درخواست کی۔ انہوں نے شرط لگائی کہ انہیں ایک پرائیویٹ بینک کھولنے کی اجازت دی جائے جو اپنے روپے سے دس گنا قرضہ دے سکے۔ یہ منظور کیا گیا۔ نام بینک آف انگلینڈ رکھا تا کہ اسے سرکاری سمجھا جائے۔ 1694ء میں وہ چارٹر ہوا۔ حکومت کو ضرورت کے مطابق قرضہ دینا منظور کیا گیا اور اس کی وصولی کے لیے لوگوں سے براہِ راست ٹیکس لینے کا اختیار بھی لیا گیا۔ یہ قومی کرنسی کی ذاتی فائدے کے لیے قانونی جعلسازی تھی۔ اب یہ بات سب ملکوں میں ہے۔
یہ بینک اس قدر طاقتور ہیں کہ ملکوں کی اکانومی پر ان کا قبضہ ہے۔ حکومتیں سرمایہ داروں کے ہاتھ میں ہیں اور بینک ان کے اوپر غالب ہیں۔ یہ ایسی ہی بات ہے جیسے فوج کو مافیا کے ہاتھوں میں دے دیا جائے۔ ہمیں ایسی مرکزی اتھارٹی کی ضرورت ہے جس پر حکومت کا اختیار ہو۔ سر ولیم پٹ (Sir. William Pitt) نے 1770ء میں کہا:
’’تخت کے پیچھے بادشاہ سے بھی بڑی کوئی طاقت ہے‘‘۔
1844ء میں بنجمن اسرائیلی نے اس کے بارے میں لکھا:
’’دنیا کے اصلی حکمران وہ نہیں ہوتے جو نظر آتے ہیں‘‘۔
1933ء میں صدر روز ویلٹ نے ایک دوست کو لکھا:
سچ یہ ہے کہ جیکسن (Jackson) کے زمانے سے حکومت بڑے بڑے مالیاتی مراکز کے پاس ہے‘‘۔
جتنے زیادہ نوٹ گردش میں ہوں گے اتنی ان کی قیمت کم ہوگی۔ سیاستدانوں کو جتنا وہ چاہیں رووپیہ مل جاتا ہے‘ مگر اس کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔ زیادہ خرچ سے افراطِ زر اور مہنگائی پیدا ہوتی ہے‘ گو اس کا اثر بہت بعد میں سامنے آتا ہے۔ بینک آف انگلینڈ کے قیام کے بعد قیمتیں دوگنا ہو گئیں۔ بے ہودہ سکیموں کں کے لیے قرضے دیے گئے۔ ایک نے تجویز کی کہ بحیرۂ احمر کا پانی نکالا جائے‘ تا کہ وہ سونا ہاتھ آئے جو فرعو ن کے لشکر کے ڈوبتے وقت سمندر میں غرق ہو گیا تھا۔ بینک کے قیام کے صرف چار سال بعد قرضہ جو پہلے 1.25 ملین تھا‘ 16 ملین ہو گیا‘ چنانچہ ٹیکس بڑھا دیے گئے۔